Skip to main content

Posts

Showing posts from February, 2022

Valentine’s Day! World Obscenity Day and our responsibility

  محبت کے نام پر منایا جانے والا عالمی دن، جسے ویلنٹائن ڈے کے نام سے جانا جاتا ہے ، اسے ہر سال 14 فروری کو دنیا بھر میں سرکاری و غیر  سرکاری سطح پر منایا جاتا ہے ۔ اسے لوورز فیسٹیول  ( Lovers Festival )  کا نام بھی دیا جاتا ہے۔ اس دن کو کسی طور پر محبت کا دن نہیں کہا جاسکتا ، حقیقت یہ ہے  کہ محبتوں کا نہیں بلکہ نفرتوں کے بیج بونے کا عالمی دن ہے کیونکہ اس دن جو کچھ ہوتا ہے،  ان تمام کاموں کا انجام محبت کے بجائے  نفرت ہوتی ہے ، نیز یہ بے حیائی اور فحاشی و عریانیت کا عالمی دن ہے ،اس دن کی بنیاد میں ہی منفی پہلو موجود ہے، کہا جاتا ہے کہ ویلنٹائن نامی ایک پادری جب ایک راہبہ سے عشق کربیٹھا تو اسے گناہ کے لیے یہ کہہ کر آمادہ کیا کہ 14 فروری کو ہم جو کچھ کریں گے گناہ نہ ہوگا اورراہبہ  پادری کی اس بات میں آ گئی اور یہ  دونوں اس گناہ  کے مرتکب ہوگئے ،یقیناً یہ ایسی بے حیائی تھی جسے کوئی قوم و ملت قبول نہیں کرسکتی اور انہیں اس گناہ پر قتل کردیا گیا ،(ویلنٹائن ڈے کے حوالے سے مزید داستانیں بھی بیان کی جاتی ہیں )  بعد میں اسی مرض میں مبتلا لوگوں نے اس دن کو منانا شروع کردیا ، گویا کہ اس دن کو منانا

Feminism and Development

  مغرب نے قوموں کی ترقی کے لئے جس سماجی فلسفہ کو آگے بڑھایا ہے ، اس کا ایک بنیادی نکتہ یہ ہے کہ ترقی کے عمل میں عورتوں کی شرکت کے بغیر خاطر خواہ نتائج کا حصول ممکن نہیں ہے۔ یہ فقرہ تو تقریباً ضرب ُالمثل کی حیثیت اختیار کرچکا ہے کہ مرد اور عورت گاڑی کے دو پہیوں کی حیثیت رکھتے ہیں اور یہ کہ زندگی کے ہر شعبے میں عورتوں کو مردوں کے شانہ بشانہ کام کرنے کے مواقع ملنے چاہئیں۔ درحقیقت اس طرح کے نعرے تحریک آزادیٴ نسواں کے علمبرداروں کی طرف سے شروع میں اُنیسویں صدی کے آغاز میں لگائے گئے تھے جو رفتہ رفتہ بے حد مقبولیت اختیار کر گئے۔ اس زمانے میں عورتوں کا دائرہ کار گھر کی چار دیواری تک محدود تھا اور عورت کا اصلی مقام اس کا گھر ہی سمجھا جاتا تھا۔ اس زمانے کی خاندانی اقدار میں کنبے کی معاشی کفالت کی اصل ذمہ داری مرد پر تھی اورعورت کا بنیادی فریضہ گھریلو اُمور کی انجام دہی، بچوں کی نگہداشت اور اپنے خاوندوں کے آرام و سکون کا خیال اور فارغ وقت میں عمومی نوعیت کے کام کاج کرنے تک محدود تھا۔ تحریک ِآزادیٴ نسواں کے علمبرداروں نے اس صورتحال کو مرد کی ‘حاکمیت’اور عورت کی بدترین ‘غلامی’ سے تعبیر کیا اور عورت