مغرب نے قوموں کی ترقی کے لئے جس سماجی فلسفہ کو آگے بڑھایا ہے ، اس کا ایک بنیادی نکتہ یہ ہے کہ ترقی کے عمل میں عورتوں کی شرکت کے بغیر خاطر خواہ نتائج کا حصول ممکن نہیں ہے۔ یہ فقرہ تو تقریباً ضرب ُالمثل کی حیثیت اختیار کرچکا ہے کہ مرد اور عورت گاڑی کے دو پہیوں کی حیثیت رکھتے ہیں اور یہ کہ زندگی کے ہر شعبے میں عورتوں کو مردوں کے شانہ بشانہ کام کرنے کے مواقع ملنے چاہئیں۔ درحقیقت اس طرح کے نعرے تحریک آزادیٴ نسواں کے علمبرداروں کی طرف سے شروع میں اُنیسویں صدی کے آغاز میں لگائے گئے تھے جو رفتہ رفتہ بے حد مقبولیت اختیار کر گئے۔ اس زمانے میں عورتوں کا دائرہ کار گھر کی چار دیواری تک محدود تھا اور عورت کا اصلی مقام اس کا گھر ہی سمجھا جاتا تھا۔ اس زمانے کی خاندانی اقدار میں کنبے کی معاشی کفالت کی اصل ذمہ داری مرد پر تھی اورعورت کا بنیادی فریضہ گھریلو اُمور کی انجام دہی، بچوں کی نگہداشت اور اپنے خاوندوں کے آرام و سکون کا خیال اور فارغ وقت میں عمومی نوعیت کے کام کاج کرنے تک محدود تھا۔ تحریک ِآزادیٴ نسواں کے علمبرداروں نے اس صورتحال کو مرد کی ‘حاکمیت’اور عورت کی بدترین ‘غلامی’ سے تعبی...
IF YOU DIDN'T STUDY ISLAM, PLEASE DON'T SAY ANYTHING ABOUT ISLAM...