کوئی بھی بات اچھی ہے یا بری اُسے جاننے کے لیے اُس بات کی حقیقت کواوراُن کے نتائج کو مدِّنظر رکھنا بہت ضروری ہے۔شیطان یا شیطان صفت لوگ یا اہلِ شر اور فسادی قسم کے لوگ ،یہ کبھی بھی ہمارے پاس آکر برملا ہم سے یہ نہیں کہیں گےکہ آپ زنا کریں، آپ چوری کیا کریں یا آپ شراب پیا کریں ۔لیکن وہ راستے ہمارے لیے ضرور آسان کرتے ہیں کہ جن راستوں سے ہم اس زنا اور شراب خوری تک پہنچ سکیں۔
مثال
کے طو ر پر عورت کا بازار میں بے پردہ ہو کر جانا ،اس میں کیا حرج ہے؟ عورت کو آپ
نے گھر میں کیوں قید کر رکھا ہے ؟عورت اور مرد کا شانہ بشانہ چلنا، عورت کا مرد کے
ساتھ دنیا کے کاموں میں شریک ہونا ،جوکہ ایک بہت خوبصورت جھانسا ہے جوعورت کو
دیا جاتا ہے کہ مرد اور عورت کو ایک ساتھ بیٹھنے میں کیا مضائقہ ہے ۔بلکہ
اگر مرد اور عورت ایک ساتھ بیٹھتے ہیں تو اس میں تو ایک دوسرے کے حوالے
سے ان دونوں کےدرمیان نفسیاتی طور پر تجسس ہی ختم ہو جائے گا۔اگر
آپ مرد اور عورت کو علیحدہ کر دیں گے توعورتیں ایک طرف ہوں اور مرد ایک طرف
ہوں تو نفسیاتی طور پر تجسس پیدا ہوتا ہے خیالات ایک دوسرے کی طرف جاتے ہیں
جو کے ایک بہت خوبصورت جھانسہ ہے ،بڑے ہی خوبصورت یہ نعرے ہیں ،بے حد خوبصورت یہ
دلائل ہیں ،لیکن ان سب کا مقصد! جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَلَا تَقْرَبُوا
الزِّنَىٰ ۖ إِنَّهُ كَانَ فَاحِشَةً وَسَاءَ سَبِيلًا
الأسراء – 32
خبردار زنا کے قریب بھی
نہ پھٹکنا کیوں کہ وه بڑی بے حیائی ہے اور بہت ہی بری راه ہے۔
اللہ بصیر بھی ہے حکیم
بھی ہے علیم بھی ہے ۔اُس نے پہلے ہی کہا ہے کہ وہ سارے راستے حرام ہیں جن میں
بے پردگی ،ایک دوسرے کی طرف دیکھنا ،بغیر اجازت کسی کے گھر میں داخل ہونا ،یہ کام
جائز نہیں ۔چونکہ عورت ایک پردے کا نام ہے ،ایک حیا کا نام ہے ،کیونکہ اللہ تعالیٰ
نے سارے جھانسوں اور نعروں کو پہلے ہی سے ختم کر دیا تاکہ عورت کی عزت کی حفاظت کی
جا سکے ۔کیونکہ اس قسم کے نعرے لگا کر، عورت کو معاشرے میں آسان شکار بنا کر
،عورت ذات تک دسترس کو آسان کرکے لوگوں کے لیے زنا کے راستوں کوہموارکیا
جا رہا ہے ۔کیونکہ عورت کا مرد کے ساتھ بیٹھنے سے کچھ اور تو نہیں ہو گا بلکہ زنا
کا راستہ آسان ہو جائے گا۔
اسی لیے ان نعروں
سے سطحی سوچ رکھنے والے کم عقل لوگ بڑی جلدی متاثر ہو جاتے ہیں۔ بڑے خوبصورت نعرے
ہوتے ہیں لیکن عقلمند لوگ گہری سوچ رکھنے والے ،اللہ کے دین کو اللہ کی
باتوں کو سمجھنے والے ،ان نعروں کی حقیقت کو اوراس کے پسِ منظراوراس کے نتیجے سے
واقف ہوتے ہیں۔ اس لیے وہ سمجھا رہے ہوتے ہیں کہ حقیقت میں یہ کوئی نعرہ نہیں ہے
بلکہ ایک سراب ہے ۔یہ نعرہ ہمیں کہیں اور لے کر جا رہا ہے۔
ایک دانا نے ایک بڑی
خوبصورت بات کہی ہے کہ یہ لوگ جو عورت کی آزادی کا نعرہ لگا تے ہیں اُن کو
عورت کی آزادی مقصود نہیں ہے بلکہ یہ تو وہ بھیڑئیے قسم کے مرد ہیں جو عورت تک
آزادی کے ساتھ پہنچنا چاہتے ہیں ۔جب ایک دوسرا غیرت مند مرد یعنی اس کا باپ،
بھائی، اُس کا شوہر ،بیٹا اس بھڑئیے کے سامنے رکاوٹ بن کر کھڑا ہے اور اسے اُس عورت
تک پہنچنے نہیں دے رہا ۔اسی لیے یہ آزادی کا نعرہ لگاتے ہیں تاکہ ہمیں یہ
عورت آزادی کے ساتھ مل سکے۔
دانا نے کی ہے کہ عورت
جانتی نہیں ہے کہ عورت کو اگر اللہ تعالیٰ پانچ منٹ کے لیے وہ سوچ وہ نظر وہ عقل
دے دے جوعقل اللہ نے مرد کو دی ہے تب عورت جان جائے گی کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے
لیے سارے احکامات کیوں رکھے ہیں ۔عورت کو مرد سے اس انداز سے کیوں جدا رکھا
ہے ،جس میں عورت کا ہی فائدہ ہے ،عورت کے لیے ہی اس میں کتنی حکمت
پوشیدہ رکھی ہے۔ لیکن اس قسم کے نعرے لگانے والے عورت کو آزادی کی طرف لے کر
جاتے ہیں کیونکہ وہ متاثر ہیں مغرب سے ،اور مغرب سے متاثر ہو کر ہمیں اُن کی ترقی
،اُن کا چاند پر جانا ،اُن کی ایجادات دیکھائیں جاتی ہیں اور بتایا جاتا ہے
کہ اُن کی ایجادات کے پیچھے یہی آزادی ہے اس آزادی کے زریعے سے انھوں نے یہ
سب چیزیں ایجاد کیں ہیں ۔جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اس ترقی کے پیچھے عقلِ انسانی ہے۔
آپ اپنے ہاں
ٹیلینٹ کو عزت دیں ،عقل کو عزت دیں، آپ ایجادات کریں لیکن ان ایجادات کے پیچھے اُن
کے انداز میں کھانا کھانا ،ان کے انداز میں چلنا ،ان کے انداز میں بات کرنا ،ان کی
طرح سے کپڑے پہن کر اپنے آپ کو یہ سمجھ لینا ہم بھی ترقی یافتہ قوم شمار ہوں گے
۔یہ سوائے ایک جہالت اور بے وقوفی کے کچھ نہیں ہے۔ اس قسم کے جھانسوں سے انسان بے
وقوف ہی بن سکتا ہے۔
ترقی ضرور کیجیے ،ان کی
طرح جانوروں جیسی زندگی گزارنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیئے ،اسی میں مسلمان
کی بھلائی اور عافیت ہے ۔آخر میں ایک بات اور سماعت فرما لیجیے کہ یہ نعرے
ہمارے ہاں بہت پھیلائے جاتے ہیں، بہت بتائے جاتے ہیں کہ:
“میرا جسم میری مرضی”
ہم مسلمان اس
وقت کمزور بنے ر ہیں گے کیونکہ ہمیں بڑا دقیا نوس بناکر پیش کیا جاتا ہے
،قدامت پسند بنا کر پیش کیا جاتا ہے ۔جیسے ہمیں معاشرے میں اٹھنے بیٹھنے کی تمیز
ہی نہیں ہے، ہم تو کچھ جانتے ہی نہیں ہیں معاشرے کے حوالے سے
۔ہمارا ایک امیج لوگوں کے سامنے اس قسم کا پیش کر دیا گیا ہے ۔نبی کریم
ﷺ کا فرمان موجود ہے کہ ابتدا میں اسلام اسی طریقے سے اجنبی تھا ۔کم لوگ
اسلام کو جاننے والے تھے ، اسی طرح اسلام کی ابتدا ہوئی تھی اور قیامت کے
قریب بھی اسلام کی حالت یہی ہو گی۔ مسلمان بہت ہوں گے لیکن حقیقت میں اسلام کو
جاننے والے بہت کم لوگ ہوں گے اور حقیقت میں جاننے والے لوگ ہی کامیاب ہوں گے۔
تو یہ جو نعرے
ہیں جن میں اپنے جسم پر اپنی مرضی کا دعویٰ کیا جاتا ہے یہ دراصل اللہ تعالیٰ کی
امانت میں خیانت کا ارتکاب ہے ۔اور اِس جسم پر ہمارا اختیار اُتنا ہی ہے جتنا کہ
رب نے ہمیں اس دنیا میں دیا ہے اور ہمارے اختیار کاعالم یہ ہے ہم بے بس ہو جاتے
ہیں اس کو چلانے میں کہ جب کوئی ڈاکڑ یا طبیب آکر ہمیں یہ کہتا ہے کہ آپ کے جسم کا
یہ حصہ اگر آپ کے جسم کے ساتھ لگا رہا جو کہ خراب ہو چکا ہے ،اس کو
اگر کاٹا نہ گیا تو آپ مر جائیں گے ،آپ کا جسم باقی نہیں بچے گا ۔تب آپ
ناچاہتے ہوئے بھی اپنے آپ کو باقی رکھنے کے لیے ،اپنے جسم اپنے وجود کو ،اپنے
آپ کو زندہ رکھنے کے لیے اپنے جسم کے اس بے جان حصے کو کٹوا دیتے ہیں۔
اگر آپ
نے روحانی طور پر اس معاشرے کو زندہ رکھنا ہے، اپنی نسلوں کو باقی رکھنا ہے
تو اس قسم کے گندے نعروں سے اپنے آپ کو آزاد کروانا ہو گا۔ آپ کی اور میری آزادی
تب ہوگی جب ہم اس قسم کی بےہودہ سوچوں سے خود کو آزاد کریں اور اس آزادی کے ساتھ
جییں جو ہمیں شریعت محمدی ﷺ نے دی ہے۔ ورنہ یاد رکھیں جسم بھی ہو گا
مرضی بھی ہو گی لیکن ایک وقت آئے گا جب روح میرے اس جسم سے نکل جائے گی پھر
جسم باقی ہوگا میں نہیں ہوں گا نامیری مرضی ہوگی ،پھر میرے قبر میں جانے تک
لوگوں کی مرضی ہوگی۔
اس کے بعد
تو مالکِ یوم الدین بادشاہ کی پھر مرضی چلے گی پھر میرا سارا اختیار اور
کنٹرول ختم ہو جائے گا ۔اگر مجھے اپنی مرضی چلانی ہے تو اُس جگہ پر جہاں ہمیشہ
رہنا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَلَكُمْ فِيهَا مَا
تَشْتَهِي أَنفُسُكُمْ وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَدَّعُونَ ﴿٣١﴾ نُزُلًا مِّنْ غَفُورٍ رَّحِيمٍ
فصلت – 31/32
جس چیز کو تمہارا جی
چاہے اور جو کچھ تم مانگو سب تمہارے لیے (جنت میں موجود﴾ ہے۔ غفور و رحیم (معبود)
کی طرف سے یہ سب کچھ بطور مہمانی کے ہے۔
جو چاہے کرو جو مانگو گے وہ ملے گا جیسی آزادی چاہئے جو چاہے وہ کر
سکتے ہو اس کے لیے یہاں رب کی مرضی کے مطابق زندگی گزرانی پڑے گی۔ یہاں اگر
اپنی مرضی چلائی تو وہاں مرضی نہی چلے گی، وہاں اگر اپنی مرضی چلانی ہے تو یہاں رب
کی مرضی کے مطابق جینا ہے۔
الشیخ عبد اللہ شمیم حفظہ اللہ
Comments
Post a Comment